تہران اجلاس اور امید و بیم

IQNA

تہران اجلاس اور امید و بیم

19:08 - July 09, 2021
خبر کا کوڈ: 3509754
کیا طالبان حقیقی معنوں میں بدل چکا ہے اور جنگ و جدل کی بجائے جمہوریت و بقائے باہمی کے نظریے پر عمل کریں گے؟

افغانستان میں طالبان نامی گروہ کی تیزی سے جاری پیشقدمی ایک بار پھر عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ اس بارے میں اہم خبر حالیہ دنوں میں طالبان اور افغان حکومت کے اعلی سطحی وفود کے درمیان تہران میں انجام پانے والے مذاکرات ہیں۔ یہ مذاکرات اس لئے بھی انتہائی اہم قرار دیے جا رہے ہیں کہ مسئلہ افغانستان کے سیاسی راہ حل کی جانب پہلا اہم قدم ثابت ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں جب افغانستان میں طالبان برسراقتدار آئے اور حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے تو ان کی پالیسیوں اور اقدامات نے خطے اور دنیا کے سیاسی حلقوں میں بہت زیادہ منفی اور شدت پسندانہ تاثر قائم کیا تھا۔ اسی وجہ سے آج اس گروہ پر اعتماد قائم کرنے میں کچھ رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں اور مختلف سیاسی حلقوں میں پریشانی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

تہران اجلاس اور امید و بیم

اگرچہ اس بارے میں بہت سے شواہد موجود ہیں کہ موجودہ طالبان ماضی کے طالبان سے مختلف ہیں اور انہوں نے اپنے بارے میں پائے جانے والے ماضی کے تاثر کو بھی دور کرنے کی بہت کوششیں انجام دی ہیں اور گذشتہ چند برس کے دوران سفارتی اور سیاسی سرگرمیوں اور مذاکرات منعقد کرنے کے ذریعے ایک طرح کی پختگی اور عقلانیت ظاہر کی ہے، لیکن ایسے بہت سے حقائق پائے جاتے ہیں جن سے چشم پوشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ بعض رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی یا امریکی جیلوں کا ماحول اور دیگر جگہوں پر برطانوی حکام اور طالبان کے درمیان خفیہ مذاکرات حالیہ نئی فضا قائم ہونے اور ان کے درمیان مشترکہ پراجیکٹ شروع ہونے کا باعث بنا ہے۔ اس کے نتیجے میں دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات انجام پائے اور افغانستان میں نیا پراسس شروع ہو گیا۔

تہران اجلاس اور امید و بیم

درحقیقت افغانستان کے مستقبل سے متعلقہ تمام پریشانیوں اور تحفظات کا نقطہ پیدائش یہی حقائق ہیں۔ سعودی عرب کی مالی امداد سے لے کر متحدہ عرب امارات کے انٹیلی جنس تعاون تک اور برطانوی نظریہ سازی سے لے کر بعض اسلامی ممالک کے انٹیلی جنس کے فیلڈ ورک تک اور امریکی حکام کے ساتھ مشترکہ آوٹ پٹ وغیرہ تمام ایسے اسباب ہیں جو افغانستان کے مستقبل اور جدید حالات کے بارے میں زیادہ توجہ دینے پر مجبور کرتے ہیں۔ اگرچہ طالبان آنے والے حالات میں اپنے نئے وعدوں کی انجام دہی اور معقول موقف اپنانے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہے اور یہ عمل بہت حد تک اعتماد کی فضا پیدا کر سکتا ہے، لیکن ایک طرف طالبان نے اپنے بقول اشرف غنی کی امریکی کٹھ پتلی حکومت گرانے کیلئے فوجی طاقت پر مبنی طریقہ کار اختیار کیا جبکہ دوسری طرف امریکہ نے فوجی انخلاء شروع کر دیا ہے۔

تہران اجلاس اور امید و بیم

امریکہ اور طالبان کے ان دونوں اقدامات کا ایک ساتھ ہونا بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ اس حقیقت نے بھی افغانستان کے اندر اور باہر گہری تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان عوام کی اکثریت ملک میں امریکہ کی سیاہ کاریوں اور اشرف غنی حکومت کی کارکردگی سے ناراضی اور متنفر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کو امریکہ کے ساتھ اپنے منعقدہ معاہدے کو جنگ میں تبدیل کرنے کیلئے کسی قسم کی لشکرکشی یا عدم استحکام پھیلانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ لیکن طالبان کی جانب سے اقتدار پر مکمل قبضے اور حنفی مسلک پر مبنی اپنی آئیڈیالوجی مسلط کرنے کی خواہش نے ایک طرف دیگر اقوام میں اقتدار سے مکمل طور پر محروم ہو جانے کی تشویش پیدا کر دی ہے جبکہ دوسری طرف دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان شہری بھی خوفزدہ ہیں۔

 

افغان عوام، لویا جرگہ اور افغانستان کی اہم شخصیات نے ملک کا جو نیا آئین بنایا ہے وہ اگرچہ آئیڈیل قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن طالبان کے جنگی رویے اور اقتدار پر مکمل قبضے کی خواہش نے اسے بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ بھی طالبان کی مخالفت کا ایک بڑا سبب ہے جس کا فائدہ امریکی اور مغربی قابض قوتوں کو پہنچ رہا ہے جبکہ اس کا نقصان افغان عوام اور ہمسایہ ممالک کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے موضوعات ہیں جو افغانستان اور خطے میں امن و امان اور استحکام کے قیام کی بجائے تشویش کا باعث بن رہے ہیں اور طالبان سے مقابلے کے محرکات فراہم کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک امریکہ اور مغربی طاقتوں کی تسلط پسندی اور برطانیہ کی خفیہ سازشوں کے ہوتے ہوئے افغانستان کے موجودہ حالات کو خوش بینی سے نہیں دیکھ سکتے۔

 

تہران، ماسکو یا اسلام آباد میں منعقد ہونے والے بین الافغان مذاکرات سے یہ توقع پائی جاتی ہے کہ ان کا نتیجہ پرامن انداز میں بقائے باہمی، ایکدوسرے کے سماجی، ثقافتی، حکومتی اور حاکمیتی حقوق تسلیم کر کے ان کا احترام اور فوجی ٹکراو، جنگ اور شدت پسندانہ اقدامات سے گریز کرنے کے عزم کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ افغان عوام، خطہ اور ہمسایہ ممالک اب ماضی کی طرح ایسی جنگوں اور حریف قوتوں کو صفحہ ہستی سے محو کر دینے کی کوششوں کے متحمل نہیں ہو سکتے جو بعض عرب ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز اپنے چہرے پر نقاب چڑھا کر ماضی میں انجام دیتی رہی ہیں۔ گذشتہ عشروں میں ان سرگرمیوں کا نتیجہ سوائے دہشت گردی اور قتل و غارت کے کچھ نہیں نکلا ہے۔

بقلم- ہادی محمدی

 

نظرات بینندگان
captcha